حوزہ نیوز ایجنسی کی رپورٹ کے مطابق، حجۃ الاسلام و المسلمین مولانا فیروز علی بنارسی استاد جامعہ امامیہ تنظیم المکاتب ولادت امیرالمونین حضرت علی علیہ السلام کی مناسبت سے کہا کہ ۱۳؍رجب المرجب۳۰ عام الفیل میں ایک ایسا عجیب و غریب واقعہ رونما ہوا کہ جس کی نظیر تاریخ بشریت میں نہ اس سے پہلے تھی اور نہ اس کے بعد وجود میں آئے گی اور وہ واقعہ خانۂ کعبہ کے اندر ایک مولود کی ولادت ہے جس کا نام نامی علی علیہ السلام رکھا گیا۔
آپ کی والدہ فاطمہ بنت اسد خاندان بنی ہاشم سے تھیں اور ان کا شمار ان خواتین میں ہوتا ہے جو آغاز اعلان رسالت ہی میں رسول خداﷺ پر ایمان لائیں اور اس سے پہلے وہ دین و آئین ابراہیمی کی پیرو تھیں۔ یہ فاطمہﷺ وہ خاتون ہیں جن کا رسول خداﷺ بہت زیادہ احترام کرتے تھے اور ان کو ماں کہتے تھے۔
اس مولود کے والد جناب عمران جو ابوطالب کے نام سے مشہور تھے اور رسول خداﷺ کے سب سے بڑے حامی و محافظ تھے۔
واقعہ کی سند
امیر المومنین کا خانۂ خدا کے اندر دنیا میں آنا ایک ایسی فضیلت ہے جسے شیعہ محدثین اور علم الانساب کے ماہرین نے اپنی اپنی کتابوں میں تحریر کیا ہے اور اہل سنت کے علماء کی ایک بہت بڑی جماعت نے اس حقیقت کو واضح لفظوں میں بیان کیا ہے اور اسے ایک بے مثل و نظیر فضیلت کہا ہے منجملہ:
۱۔محمد مالکی کہتے ہیں:
علی علیہ السلام مکہ میں خانۂ خدا کے اندر، ماہ رجب المرجب ۳۰ عام الفیل ۱۳ تاریخ کو جمعہ کے دن پیدا ہوئے۔ ان سے پہلے کوئی بھی کعبہ کے اندر پیدا نہیں ہوا تھا اور یہ ولادت ایک ایسی فضیلت ہے کہ بلند مرتبہ پروردگار نے اسے علی علیہ السلام سے مخصوص کیا ہے۔ ان کے مرتبہ کو بلند و بالا کرنے اور ان کے عظمت و کرامت کو آشکار کرنے کے لئے۔
(الفصول المہمہ،ص۱۲،۱۳)
۲۔حاکم نیشاپوری کہتے ہیں:
کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام کی ولادت بطور تواتر ہم تک پہنچی ہے۔
(مستدرک حاکم، ج۳،ص۴۸۳)
۳۔آلوسی بغدادی صاحب تفسیر کہتے ہیں:
خانۂ کعبہ میں علی علیہ السلام کی ولادت اقوام عالم میں مشہور و معروف ہے اور ابھی تک کسی نے اس فضیلت کو حاصل نہیں کیا ہے۔
(شرح قصیدہ عبدا لباقی افندی،ص۱۵)
اہل سنت کے دیگر علماء و دانشوروں نے بھی اس واقعہ کا اعتراف و اقرار کیا ہے لیکن شیعہ کتب حدیث میں اس بارے میں بہت سی روایتیں پائی جاتی ہیں ۔ یہاں پر صرف ایک روایت کی طرف اشارہ کیا جا رہا ہے:
سعید بن جبیر یزید ابن قعنب سے نقل کرتے ہیں کہ میں عباس بن عبد المطلب اور بنی عبد العزی کے چند افراد کے ساتھ خانۂ خدا کے سامنے بیٹھا ہوا تھا کہ اچانک فاطمہ بنت اسد وہاں آئیں، وہ حاملہ تھیں اور دردِ زہ سے بیتاب تھیں۔ انہوں نے کعبہ کے قریب جا کر کہا:
خدایا! میں تجھ پر، تیرے نبیوں پر اور تیری جانب سے نازل ہونے والی کتابوں پر ایمان رکھتی ہوں اور اپنے جد ابراہیم علیہ السلام خلیل کی باتوں کی تصدیق کرتی ہوں کہ جنہوں نے اس بیت عتیق کی تعمیر کی ہے۔ پس اس ذات کے حق کا واسطہ جس نے اس گھر کو بنایا۔ اس بچہ کی ولادت کو مجھ پرآسان کر دے۔
یزید ابن قعنب کہتے ہیں:
ہم نے دیکھا کہ خانۂ کعبہ پشت (محل مستجار)سے شگافتہ ہوا اورفاطمہﷺ بنت اسد کعبہ میں داخل ہو گئیں اور اس کے بعد ہم انہیں نہ دیکھ سکے اور دیوار دوبارہ اپنی پہلی والی حالت پر واپس آئی۔ ہمارے ذہن میں یہ بات آئی کہ خانۂ خدا کے دروازہ کا تالاکھولا جائے لیکن تالا نہ کھل سکا۔ فعلمنا ان ذالک امر من امر اللہ عز و جل پس ہم سمجھ گئے کہ یہ خدائے عزیز و جلیل کی جانب سے ہے۔
یہ مادر و فرزند چند دن کعبہ کے اندر رہے۔ سوال یہ ہے کہ ان چند دنوں میں ماں نے کیا کھایا، کیا پیا اور اپنی ضروریات کو کس طرح پورا کیا۔
اگر ان سوالات میں ذرا بھی غور و فکر کیا جائے تو بے شک و شبہ اس مولود اور اس کی ماں کی عظمت و فضیلت سمجھ میں آ جائے گی کہ کیونکر ان دونوں حضرات کے احترام میں کیسے معجزے اور کرامات رونما ہوئے، خانۂ کعبہ کی دیوار کا شق ہونا، دوبارہ خود بخود جڑ جانا۔ چار دن کعبہ کے اندر رہنا۔ مولود کا وقت ولادت کےعوارض سے پاک و پاکیزہ ہونا اور اگر ایسا نہ ہوتا تو وہ کعبہ میں داخل ہی نہ ہو پاتا۔ بہشتی غذاؤں سے بہرہ مند ہونا وغیرہ وغیرہ۔
مناسب ہے کہ واقعہ کے اگلے حصہ کو خود فاطمہ بنت اسد کی زبانی سنا جائے۔
بے شک مجھے مجھ سے پہلے والی خواتین پر برتری دی گئی ہے اس لئے کہ آسیہ بنت مزاحم (زوجۂ فرعون)چھپ کر ایسی جگہ پر خدا کی عبادت کرتی تھیں جسے وہ خود پسند نہیں کرتی تھیں کہ وہاں پر یعنی فرعون کے محل میں خدا کی عبادت کریں سوائے ناچاری و مجبور ی کی حالت میں اور بے شک مریم بنت عمران نے کھجور کے سوکھے درخت کو اپنے ہاتھ سے ہلایا تاکہ اس سے تازہ کھجور گرے اور اسے کھائیں لیکن میں خانۂ خدا میں داخل ہوئی اور جنتی میوؤں اور روزی کو کھایا۔
(بحار الانوار،ج۳۵،ص۸)
نام رکھنے کی رسم
وہ نورانی مولود جو خانۂ خدا میں پیدا ہوا اور چار رات دن اس کی اور اس کی والدہ کی بہشتی غذاؤں سے مہمان نوازی کی گئی اس کا نام رکھنے کے لئے بھی خدائے کعبہ کو فیصلہ کرنا چاہئے۔ ماں باپ، دادا، دادی کو نہیں اور ایسا ہی ہوا۔ خدا نے اس مولود با برکت میں اپنی منت و احسان کو مکمل کیا اور عالم غیب سے فاطمہ بنت اسد کے کانوں تک یہ آواز پہنچا دی کہ اس مولود کا کیا نام رکھا جائے۔
فاطمہ بنت اسد فرماتی ہیں:
جب میں کعبہ سے نکلنا چاہ رہی تھی تو ایک ہاتف غیبی نے مجھے آواز دی: اے فاطمہ! اس مولود کا نام علی علیہ السلام رکھو۔ پس وہ علی علیہ السلام ہے اور خدائے علی اعلیٰ ہے جو کہتا ہے کہ بیشک میں نے اس کا نام اپنے نام سے نکالا ہے اور اسے اپنے ادب سے پروان چڑھایا ہے۔
اور میں نے اسے پوشیدہ اور پیچیدہ علم سے آگاہ و با خبر کیا۔ یہ وہ بچہ ہے جو میرے گھر کی چھت پر اذان دے گا اور میری تقدیس و تمجید کرے گا۔ پس خوشا بہ حال وہ جو اس سے محبت کرے ، اس کی اطاعت کرے اور لعنت ہو اس پر جو اس سے دشمنی کرے اور اس کی نافرمانی کرے۔
اس کے بعد جناب فاطمہ بنت اسد گھر کی طرف روانہ ہوئیں ۔ اسی دوران ایک آدمی دوڑتا ہوا ابوطالب علیہ السلام اور ان کے خاندان کی طرف آیا اور ولادت علی علیہ السلام کی شہادت دی۔ پورے گھر والوں میں سب سے آگے رسول خداﷺ تھے ۔ فاطمہ بنت اسد اور مولود کے استقبال کو نکل پڑے۔ آنحضرت نے مولود کو آغوش میں لیا اور اپنی زبان مبارک کو مولود کے دہن میں دیا اور کان میں اذان و اقامت کہی اور جناب ابوطالب علیہ السلام نے اس نو مولود کے ولیمہ کے طور پر بہت سے اونٹ ذبح کئے اور سارے لوگوں کو دعوت دی۔ اس طرح کہ پہلے سات مرتبہ خانۂ خدا کا طواف کریں اور اس کے بعد ابوطالب علیہ السلام کے گھر آئیں اور علی علیہ السلام کو سلام کریں۔
(بحار الانوار،ج۳۵،ص۱۸)
رازِ ولادت
جو چیز زیادہ اہمیت کی حامل اور ضروری ہے وہ یہ کہ پورا عالم اسلام چاہے سنی ہو یا شیعہ سب کی اس پر توجہ ہے کہ خانۂ خدا اور کعبہ کے اندر ولادت کا فلسفہ اور راز کیا ہے؟
جناب مریم ان ساری عظمتوں جیسے قرآن کی رو سے وہ معصومہ تھیں اور ایک اولو العزم رسولﷺ کی ماں تھیں، اس کے با وجود جب انہیں دردِزہ شروع ہوتا ہے تو انہیں حکم دیا جاتا ہے کہ محراب اور عبادت گاہ کو چھوڑ دیں اور کسی دور جگہ جائیں۔
(سورۂ مریم؍۲۲۔۲۳)
اس لئے کہ یہ عبادت گاہ ہے زچہ خانہ نہیں لیکن فاطمہ بنت اسد کو دنیا کی سب سے مقدس عبادت گاہ یعنی خانۂ کعبہ کے اندر بلایا جاتا ہے اور معجزہ کی صورت میں دیوارشق ہوتی ہے اور بعض روایات کی بنیاد پر انہیں الہام ہوتا ہے کہ خانۂ کعبہ میں داخل ہو جاؤ۔
(سند الہدایۃ،ص۱۲۹)
عموماً اہل سنت کے علماء اور دانشور حضرات اس واقعہ کو حضرت علی علیہ السلام کے لئے صرف ایک فضیلت جانتے ہیں لیکن شیعہ روایتوں میں ایسی باتیں نظر آتی ہیں جو ایک عظیم راز اور بڑے مقصد کی نشاندہی کرتی ہیں یعنی ایسا نہیں ہے کہ حضرت علی علیہ السلام کا خانۂ کعبہ کے اندر پیدا ہونا صرف ایک استثنائی بے مقصد واقعہ ہو اور فضیلت علی علیہ السلام کو بیان کرنے کے علاوہ پروردگار عالم کا کوئی دوسرا مقصد نہ رہا ہو بلکہ بات اس سے زیادہ عمیق ہے اور اس واقعہ سے پس پردہ بہت سے راز پوشیدہ ہیں کہ جن تک غور و فکر کے ذریعہ پہنچا جا سکتا ہے ۔
واقعہ کی تحلیل
اگر ائمہ اطہار علیہ السلام بالخصوص مولائے کائنات کی امامت و ولایت کی روایتوں میں غور و فکر کیا جائے تو معلوم ہو جائے گا کہ توحید کی سب سے بنیادی شرط ائمہ معصومین علیہ السلام کی ولایت ہے جیسا کہ حدیث سلسلۃ الذہب اور متعدد دوسری حدیثوں میں توحید کو خدا کا نا قابل شکست قلعہ کہا گیا ہے لیکن اس شرط کے ساتھ کہ اس کے ساتھ ساتھ ائمۂ اطہار کی ولایت و امامت بھی ہو۔
(التوحید، شیخ صدوقؒ)
یہ تو عقیدہ کی بنیاد پر ہے لیکن عمل کی بنیاد پر اعمال کی قبولیت کی سب سے بنیادی شرط بھی حضرت علی علیہ السلام اور ائمہ اطہار علیہ السلام کی ولایت و امامت کو قبول کرنا ہے۔
امام محمد باقر علیہ السلام نے ارشادفرمایا:
جو شخص خدائے عزیز سے قریب ہونا چاہے اس عبادت کے ذریعہ جس میں وہ اپنی پوری سعی و کوشش صرف کر دیتا ہے لیکن اس کے لئے خدا کی جانب سے منصوب کوئی امام نہ ہوتو اس کی یہ سعی و کوشش قبول نہ ہوگی اور وہ گمراہ و سرگرداں ہوگا اور خدا بھی اس کے عمال کو نا پسند کرے گا۔
(اصول کافی، ج۲،ص۱۸۳)
نیز رسول خداﷺ نے حضرت علی علیہ السلام کو مخاطب قرار دے کر فرمایا:
اگر کوئی شخص جناب نوح علیہ السلام کی اپنی قوم کے ذریعہ رسالت و تبلیغ کی مدت بھر عبادت کرے اور کوہ احد کی مقدار بھر سونا رکھتا ہو اور اسے راہ خدا میں انفاق کر ے اور اسے اتنی طولانی عمر ملے کہ ہزار بار پا برہنہ خانۂ کعبہ کی زیارت کرے (حج کرے)اس کے بعد مظلومانہ اور بے جرم و خطا صفا و مروہ کے درمیان مارا جائے ۔ اے علی علیہ السلام ! اگر وہ آپ کی ولایت نہ رکھتا ہو تو وہ جنت کی خوشبو بھی نہیں سونکھ پائے گا۔
(بحا الانوار، ج۲۷،ص۱۹۴)
لیکن ظاہری اعتبار سے خانۂ خدا کعبہ محور و مرکز توحید ہے اور لوگوں کو اس کے گرد طواف کرنا چاہئے لیکن طواف اور نماز میں دلوں کو اس ذات کی طرف متوجہ رہنا چاہئے کہ جو اس بیت کا خانہ زاد ہے۔
ایک لطیف بات
خداوند عالم نہ کسی کا فرزند ہے اور نہ ہی اس کا کوئی فرزند ہے لیکن یہ بات بھی نا قابل انکار ہے کہ خانۂ خدا سے ایک نوزاد کے گریہ کی آواز سنائی دی ہے۔
خانۂ کعبہ کے اندر ولادت علی علیہ السلام کا راز یہ ہے کہ ہم اس بات کو اچھی طرح سمجھ لیں کہ خانۂ خدا اور توحید کا دل ولایت و امامت علی علیہ السلام میں ہے اور روایتوں میں بھی اس بات کی طرف اشارہ ہوا ہے منجملہ:
۱۔ وہ جملات جنہیں جناب فاطمہ بنت اسدنے خانۂ کعبہ سے باہر آتے وقت سنا:
فطوبیٰ عن اطاعۃ و ویل عن البغضۃ و عصاہ۔ خوشا بہ حال وہ جو اس کی اطاعت و پیروی کرے اور لعنت ہو اس پر جو اس سے دشمنی کرے اور اس کی نا فرمانی کرے۔
یہ جملہ اس بات کی طرف اشارہ ہے کہ خانۂ کعبہ کے اندر علی علیہ السلام کی ولادت کا راز یہ ہے کہ لوگ ان کے مطیع و فرمانبردار بن جائیں اور ان کی ولایت و امامت سے انحراف اور نافرمانی نہ کریں۔
۲۔ حضرت علی علیہ السلام کے ولیمہ کے لئے جناب ابوطالب علیہ السلام کے دعوت نامہ میں وارد ہوا ہے کہـ ہلموا و طوفوا بالبیت سبعاً و ادخلوا و سلموا علیٰ علیّ ولدی۔اے لوگوں آؤ سات بار خانۂ خدا کا طواف کرو ۔ اس کے بعد میرے گھر میں داخل اور میرے بیٹے علی علیہ السلام کو سلام کرو۔
یہ کلام اس راز کی طرف اشارہ کرتا ہے کہ علی علیہ السلام آئندہ تمہارے امام و قائد ہوں گے۔
۳۔ امام محمد باقر علیہ السلام نے فرمایا:
بے شک لوگوں کو حکم دیا گیا ہے کہ ان پتھروں (خانۂ کعبہ)کے پاس جائیں اور ان کا طواف کریں اوراس کے بعد ہم اہل بیت علیہ السلام کے پاس آئیں اور اپنے اوپر ہماری ولایت و امامت کی ہم کو خبر دیں اور اپنی نصرت و مدد کو ہمارے سامنے پیش کریں۔
(عیون اخبار الرضا علیہ السلام ،ج۲،ص۲۹۲)
اس بحث کا خلاصہ اور نتیجہ یہ ہے کہ خانۂ کعبہ کے اندر حضرت علی علیہ السلام کی ولادت کا راز یہ ہے کہ لوگ حالت نماز میں کعبہ کی طرف ہوں اور ان کا دل ائمۂ معصومین علیہ السلام میں سر فہرست حضرت علی علیہ السلام کی امامت کی جانب ہو اور اس بات کو کبھی بھی نہ بھولے کہ حضرت علی علیہ السلام خانۂ توحید کے اندر اعلیٰ مقام رکھتے ہیں۔